ہم سے کر لیتے ہیں پیمان وہ ہر بار کییٔ
ہیں عزیز اُن کو مگر اور بھی دِلدار کییٔ
اس کی باتوں سے مہک آتی نہیں پھولوں کی
جس نےلفظوں سے کھلا ڈالے ہیں گلزار کییٔ
کتنا معصوم ہے اب تک اسے معلوم نہیں
کھیل میں اس نے جلا ڈالے ہیں گھر بار کییٔ
وہ جنھیں روز سہولت سے بدل دیتا ہے
زندگانی کے لیۓ اس کے ہیں معیار کییٔ
میرے غم کا ہی مداوہ نہ کویٔ کر پایا
یوں تو دنیا میں نظر آتے ہیں غمخوار کییٔ
شاز ہی چھوتی ہے تحریر کویٔ ذہنوں کو
یوں تو تخلیق ہوۓ دنیا میں شہکار کییٔ