ہم پہ اتنی التفات کیوں
ہو نہ ہو کوئی ہے بات کیوں
مختصر ملن کی رات کیوں
بے خودی ہے بے ثبات کیوں
عاشقی اور احتیاط کیوں
روز ہو نہ واردات کیوں
عاشقی کا کھیل اک نظر
اتنی لمبی یہ بساط کیوں
تیرے گیسوؤں کا ہے سحر
کالی اتنی چاند رات کیوں
ملنے آؤ ہم سے روز ہی
چاندنی کی ایک رات کیوں
عشق وشق میں ہے سب روا
اونچی نیچی ذات پات کیوں
تار دل تو ٹوٹا ہے مرا
دُکھ رہی ہے کائنات کیوں
ہجر کے عظیم کوہسار
پائیے کوئی نشاط کیوں
دوریوں کا کم عزاب تھا
اور پھر پل صراط کیوں
اب کے تو ہوا بھی ساتھ تھی
پھر ہوئی ہمِیں کو مات کیوں
پھر سے ایک عشق کیجئے
دل جگر ہیں کھنڈرات کیوں
صبح تو ہوئی تھی بس ابھی
ہو گئی ہے پھر سے رات کیوں
ہم وہ شاعری نہ کر سکھے
ہم کو وہ ملے ثبات کیوں
ہم ہر اک پرکھ میں رہ گئے
ہو ندیم اب نجات کیوں