ہم کو معلوم ہے کس بات پر ڈر لگتا ہے
کوئی گھنٹی بجائے تو مجھے ڈر لگتا ہے
کوئی خاموشی ہے دل کی ویرانی ہے
دل پر میرے یادوں کی نشانی ہے
کیا کہوں اپنے دل پر کیا ستم ہے
جاں جاتی ہے دل کو ڈر لگتا ہے
کتنا خاموش اجڑہ ہوا ہے دل میرا
کوئی تنہائی کے موسم کا شجر لگتا ہے