شرمندگی سے نہ ان کی گردن کہیں خم ہو
ہم کہتے ہیں کہ ان کی شکائیت ذرا کم ہو
ابتدائے عشق کی خواہشیں بھلی محسوس ہوتی ہیں
تم نہیں آپ ہو میں نہیں ہم ہو
پوچھ لوں تجھ سے گر تیری ذات کے معانی
مر جاؤ گے گر کسی بات کا زعم ہو
کسی کام نہ آئیں گی رقیبوں کی سازش
دب جاتا ہے گرداب جو بادبان میں دم ہو
جب جلنا ہی مقدر ہو چکا تو پھر
ان کے دل جلانے کا کیوں غم ہو
دل دیکھتا ہے یار کو اس روپ میں
شریک زخم بھی ہو اور شریک مرہم ہو
اپنی ستم گری کی خو پہ اتراتے ہوئے عیاز
وہ ہنس دیتے ہیں کبھی آنکھ جو میری نم ہو