ہو جاؤں گا میں کبھی,منظورِ نظر بھی
بیٹھا ہوں اِسی آس پہ,آؤگے اِدھر بھی
یہ اشکِ محبت ہیں,اِنہیں دل میں سمیٹو
کہتے ہیں بڑے کام کے ہیں,یہ لعلُ و گہر بھی
پھیلی ہوئی اُن آنکھوں میں سمٹاِ ہوں کچھ ایسے
.مدہوش ہووا ایسا نہ رہی اپنی خبر بھی
کہنے کو محبت بھی غینِمت ھے وگرنہ
سنتے ہیں بڑی شے ھے عداوت کی نظر بھی
ہر سایہِ دیوار پہ, دھوکہ تھا اس کا
اس شہر نے دیکھا ہے میرا حُسنِ نظر بھی
یہ نامِ محبت بھی, کیا چیز ھے طارق
ہنستا ہوں تو گرتے ہیں میرے اشکِ جگر بھی