ہوئے آسان یہ کیسا رہا ہے
یہ کس احساس کو دیکھا رہا ہے
جو اک طوفاں ہے اپنی خامشی میں
جو بن کر آنکھ میں ڈوبا رہا ہے
اک اس کی ہی کمی رہتی ہے ورنہ
جو آ نکلا کبھی ایسا رہا ہے
سناؤں کیا میں اپنے غم کے قصے
تمہارے وعدے اب خطرہ رہا ہے
مجھے معلوم ہے رستہ تمہارا
غموں کا دیکھ کر بستا رہا ہے
ہمارا انتظار اب بھی ہے قائم
ابھر آتا ہے دل سویا رہا ہے
ہماری آنکھ میں ہے حسرتِ دید
میں وحشت لے چلی صحرا رہا ہے
اتر کر دل کے آئینوں میں وشمہ
کہیں جھونکا ہوا چلتا رہا ہے
وشمہ خان وشمہ