ہوائیں اتنے زوروں سے چلی ہیں
تمنائوں کا طوفاں لا چکی ہیں
ہر اک رہبر کو کہنا چاہتا ہوں
تری باتیں بناوٹ سے بھری ہیں
اُکھاڑے گی بھلا کیا موت میرا
کہ جیون سے مری آنکھیں لڑی ہیں
بیانِ حق سدا کرتا رہا پر
کہاں کانوں پہ جوئیں رینگتی ہیں
جسے دیکھو وہی ہیرو بنا ہے
مری آنکھیں ولن کو ڈھونڈتی ہیں
وفائوں کے دیئے بجھتے بھی کیسے
مری آنکھیں ہی رستہ تاکتی ہیں
مرے ہاتھوں میں یہ میری لکیریں
اشاروں پر کسی کے ناچتی ہیں
ہیں تخلیقات اعلیٰ، قابلِ رشکؔ
سماجی مرتبے میں ُتل رہی ہیں