سوچتا ہوں اکثر اپنی خاموشی کا سبب
لگتا ہے مجھے غم کا پہاڑ میں رکھتا ہوں
تیرے ہر ستم نے پھینکا ہو جیسے اک کنکر
مجھے اپنا آپ بھی اک شیطان لگتا ہے
فقط تم سے ہی منسوب یوں رکھی ہے اپنی زندگی
جیسے اجر روزے کا خدا نے پاس رکھا ہے
چاہت سے میری یوں بے خبر رہ کر تم نے
ہوتے ہوئے زمانہ شناس حیران کر رکھا ہے
ہے تمہیں شکوہ کہ اوروں کی خوشیاں عزیز رکھتا ہوں
سنبھال کر مگر دل میں تم کو ہی رکھا ہے
کوئی امید ملن کی نظر نہیں آئی تو
خدا سے ہی اب لو لگا رکھی ہے زلفی