ہونٹ ہیں خشک عجب سی تشنگی ہے
ساقی پلا دے اب جو کچھ بچی کچی ہے
ٹھانی ہے تیرے ہاتھ سے ہی پیوں گا میں
اسی لگی ہوئی ہے جو کبھی کسی سے نہ بجھی ہے
تیرے لیے ہے جینا تیرے لیے مرنا یاد رکھ
تو ہی میری زندگی تو ہی میری بندگی ہے
ساز دل ساقی اک بار چھیڑ دے پھر تو اب
گل کے ساتھ کھلے اسی میں میری زندگی ہے
میری بےبسی کا عالم کوئی میرے دل سے پوچھے
میں نے جس جگہ سر جھکایا وہاں ختم بندگی ہے
پینے کا جب مزا ہے آنکھوں سے تیری پی لوں
صراحی سے پینے میں آخر کیا مزا بندہ پرواری ہے