ہونٹوں سے تو چھینی ہی تھی مسکان ہماری
اب لگتا ہے لے جائے گا تُو جان ہماری
مر جائیں گے اک روز یوں غزلوں کی زمیں میں
رہ جائے گی اشعار میں پہچان ہماری
اب رہتی ہے چہرے کی طبیعت میں اداسی
تب حُسن کی دنیا میں بھی تھی شان ہماری
اے کاش چلی آئے کبھی صبح بھی ملنے
ہر شام بنی رہتی ہے مہمان ہماری
وہ چاند ہے چمکے گا ،ہمیں دے گا اجالے
کر دے گا وہ راتوں کو یوں حیران ہماری
کیوں رہتی ہے مایوس مقدر سے تُو وشمہ
مشکل بھی تو ہو سکتی ہے آسان ہماری