ہونٹوں پہ سجا کر یوں مسکان نکلتے ہیں
یہ درد تو آنکھوں سے ہر آن نکلتے ہیں
آتے ہیں تجھے ملنے ، ہوتے ہیں جواں لیکن
پھر شہر سے نکلیں تو بے جان نکلتے ہیں
اب بھولنا چاہوں تو دل بھول نہیں پاتا
سب سوئے ہوئے میرے ارمان نکلتے ہیں
اس شہرِ تمنا میں دل خون ہوا میرا
یہ یاد کے ہر سو جو طوفان نکلتے ہیں
وہ درد کی صورت ہی مرے دل میں مچلتا ہے
جب خواہشِ ہستی کے سامان نکلتے ہیں
ماحول تو چہرے کا غربت نے بگاڑا ہے
کیوں دل سے محبت کے سلطان نکلتے ہیں
اب تو ہی بتا وشمہ کیسے میں انہیں روکوں
اس کہر میں آنکھوں سے مرجان نکلتے ہیں