یا دوست ہی پہلے سا عناں گیر نہیں ہے
یا دستِ مسیحا میں وہ تاثیر نہیں ہے
کیا رقصِ جنوں سے ہو کرامت کی توقع
کہ پائوں میں اب حلقہء زنجیر نہیں ہے
خیرہ ہوئی جاتی ہے نظر، نظرِ کرم سے
یہ عاجزی میری، کوئی تقصیر نہیں ہے
یا میں ہُوا الفاظ کا پابند زیادہ
یا شاعری جذبات کی تشہیر نہیں ہے
نقادِ ہنر نہ مجھے لفظوں سے سزا دے
ہے موئے سخن، آنکھ میں شہتیر نہیں ہے
اے ملکِ خداداد کے حاکم تُو سمجھ رکھ
یہ ملک تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے
ہے طرزِ تغافل سے بھرا طرزِ تکلم
کہنے کو تاجؔ مسئلہ گھمبیر نہیں ہے