آج مجھے اک گلی یاد آئی
اس گلی کی اک لڑکی یاد آئی
میں تو گویہ گزر چکا تھا
مجھے تو گویہ اپنی برسی یاد آئی
اور وہ جس کا پردہ مجھے دیکھنے کے لیے اٹھتا تھا
مجھے آج اس گھر کی کھڑکی یاد آئی
اور جس میں محبّت کے پتھر اچھالے جاتے تھے
گاؤں کی پرانی وہ ندی یاد آئی
کالی گھٹاؤں کو جو دیکھا آسمان پر
پھر مجھے تیرے بالوں کی گہری لڑی یاد آئی
آخری بار اس گاؤں میں کب گزرے تھے
پھر مجھے تیری رخصتی یاد آئی
جو دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں بدل گی طیّب
مجھے وہ ویران سی بستی یاد آئی