غنچہء دل اب مرجھانے لگے
آج پھر کوئی یاد ہمیں آنے لگے
رات کے دم توڑتے سائے
تنہائیوں پر ہماری مسکرانے لگے
بجھتے حسرتوں کے چراغ بھی
یاس کے دیپ دیکھو جلانے لگے
رم جھم برستے ساون بھی
تن من میں اگ سی برسانے لگے
یہ کیسی اگن ہے جو بجھتی ہی نہیں
ساغر پر دیکھو کتنے آشیانے جلانے
یوں تو سبھی ہیں جہاں میں اپنے مگر
دل ویراں میں تنہائی ستم کیوں ڈھانے لگے
تیری کج ادائیوں کی قسم ہے جاناں
ہم کانٹوں سے دامن اب الجھانے لگے
میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے ہے پھر
کیوں یہ فاصلہ سا درمیاں میں آنے لگے
انہیں دیکھے بن چین کہیں ملتا ہی نہیں
شاید اسی لئے فرح وہ ہم سے کترانے لگے