صبح ہوتے ہی ان کی یاد آئی
ان کا پیغام پھر صبا لائی
رخ پہ اس نے جو زلف لہرائی
یوں لگا ہر طرف گھٹا چھائی
سینکڑوں فتنے سر اٹھاتے ہیں
اک قیامت ہے ان کی انگڑائی
ان کی الفت کا یہ کرشمہ ہے
خود تماشہ ہوں خود تماشائی
ہیں قیامت وہ جھیل سی آنکھیں
کس نے جانی ہے ان کی گہرائی
اپنے بھی ہوگئے ہیں بیگانے
جب سے تم سے ہوئی شناسائی
جیب و داماں کی خیر ہو یارب
صورت یار پھر نظر آئی
یہ یقیں ہوگیا نہ آئو گے
آپ نے جب بھی ہے قسم کھائی
ان کو پاس وفا نہیں ورنہ
کس لئے ہوتی جگ میں رسوائی
راس آیا نہیں فراق ہمیں
اب تو ڈسنے لگی ہے تنہائی
آپ اپنے رقیب ہیں یاسر
ان کی چاہت کہاں پہ لے آئی