چمن میں جب بھی کوئی شاخ لہلہاتی ہے
نہ جانے کیوں تیِرے آنچل کی یاد آتی ہے
ہر آئینہ پہ نہ کر اعتبار، دیدہء شوق
نظر کا کیا ہے، یہ اکثر فریب کھاتی ہے
تیِرا جمال ہے تیرے وجود کا احساس
بہار آئے تو خوشبو بھی ساتھ لاتی ہے
بصد خُلوص جو آتا ہے کام اوروں کے
حقیقتا“ وُہی انسان کائناتی ہے
کبھی کبھی تو دھڑکتا ہے ایسے دل، جیسے
بہت قریب سے آواز تیری آتی ہے
میں کیسے ذکر کروں سوزِ غم کا اے عمران
کہیِں یہ آنچ بھی لفظوں میں ڈھالی جاتی ہے