پھر یاد کسی کی آ گئی
میرے من کو تڑ پا گئی
سوہنے روپ پہ وہ مسکان
یہ کیا اگن لگا گئی
اجنبیت میں وہ چاہت
کیا سے کیا بنا گئی
ملتے ہونگے ملنے والے
فرقت کسی کی بھا گئی
تنہائ کے اس اندھیارے میں
یاد اک دیپ جلا گئی
شرمگیں نظروں کی یاد ناصر
شوق دید کو بڑھا گئی