یار میر ے نے آج آنا ہے
دل کا موسم بہت سہانا ہے
چار پائی پہ ہی پڑا ہوں میں
عہد جو کیا ہے وہ نبھانا ہے
اس لیے تاک کو کھلا رکھا
اس نے دروازے کو بجانا ہے
اس کو جانے کہیں نہیں دینا
پیار اپنے کو اب بچانا ہے
تب یقیں آئے گا پیار کا اس کو
چیر کے اپنا دل دکھانا ہے
کب کروں گا میں پیار کا اظہار
پھول زلفوں میں تب سجانا ہے
جب کبھی روٹھ ہی گیا سجنا
رکھ کے سر قدموں میں منانا ہے
پہلے چھونے ہیں لمس ہی اس کے
بعد میں دست کو بڑھانا ہے
کرتا کتنا ہے پیار وہ مجھ سے
پیار شہزاد آ ز مانا ہے