یار کے انتظار میں گم ہوں
سوچ کے میں حصار میں گم ہوں
دے گیا ہے فراقِ ہجر مجھے
بے وفا کے تو پیار میں گم ہوں
میں حسیں خوب پیار کے لمحے
رت سہانی بہار میں گم ہوں
آرہی ہے بہت ہی یاد مجھے
پیار الفت وہ مار میں گم ہوں
اب رفاقت ذرا بڑھانی ہے
کیسے ہوگا شکار میں گم ہوں
پھیلی آلودگی ہے دنیا میں
شور گرد و غبار میں گم ہوں
آنے والے حسیں ہوں گے لمحے
وقت کے انتظار میں گم ہوں
دیتا ہے بار با ر مجھ کو صدا
بچھڑے ہوئے میں یار میں گم ہوں
کچھ نہیں یاد اب رہا شہزاد
میں شرابی ہوں بار میں گم ہوں