یوں بھی تو تری راہ میں دیوارپہ چل کر
ہم حسن طلب عشق کے بیمارسنبھل کر
اتنا بھی محبت کو نہ سوچے مری ہستی
یہ معجزۂ فکر کہیں دل سے مچل کر
کیا حاصل کار غم الفت ہے کہ مجنوں
اب دشت نوردی کو بھی تیار ہے حل کر
اس شہر میں احساس کی دیوی نہیں رہتی
ہر شخص کے چہرے کو نیا دیکھ سنبھل کر
پھر تجھ سے جدا ہو کے کہیں خود سے بچھڑ جائیں
ہم لوگ کچھ ایسے بھی دل آزاربدل کر
تو جسم کے اندر ہے کہ باہر ہے کدھر ہے
وشمہ مری جاں کب سے تجھے ڈھونڈ نکل کر