یوں تو سوچا تھا دل نے سب کچھ کہیں گے
تم نے مل کر کہدیا کہ چلو پھر ملیں گے
مسافت اور راہیں دیوانوں نے خوب دیکھی ہیں
جب منزلیں مُکر جائیں تو کہاں یہ چلیں گے
اس سے پہلے تو گھر کے دروازے تھے منتظر
اب ہر رات دیؤں کے ساتھ ہم بھی جلیں گے
اپنی تو تجارت بن گئی ہے درد سمیٹنے کی
کبھی وقت ملا تو انہیں الگ الگ تولیں گے
امیدوں کی نمائش کرتے کرتے پھر سوچا کہ
ابکہ اور زندگی سے کتنا کھیل کھیلیں گے
کچھ وقت کے ساتھ انصاف کی تقاضہ ہے پھر
بے سخن کرکے صدائیں کچھ دن تو جیء لیں گے