ایک پھانس چبھتی ہے
اور درد ماضی کے سارے جاگ اٹھتے ہیں
اک خراش آتی ہے
اور گھاؤ وہ سارے
جن کو بھرنے میں ہم نے
مدتیں بِتائی ہیں
پھر سے رِسنے لگتے ہیں
ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں
کرب چبھنے لگتے ہیں
درد کی مسافت میں
اور رہِ اذیت میں
بے ہُشی کی حالت میں
آگہی یہ ہوتی ہے
پھانس یہ شناسا ہے
یہ خراش اپنی ہے
ان شناسا پھانسوں کو
اپنی ان خراشوں کو
اپنا جاننے ہی میں
درد ہے، اذیت ہے
ایک بار رد کردو
عمر بھر کی راحت ہے