یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
Poet: م الف ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi, Karachiہے یہاں کون مرا آ کے سنبھالے مجھ کو
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
اس کی ان چالوں سے ہرگز بھی نہ بچ پایا میں
پھنس چکا ہوں یہاں اب کوئی نکالے مجھ کو
چھوڑ باتیں یہ گلے شکوے بھی اب رہنے دے
آج بے ساختہ سینے سے لگالے مجھ کو
اب کے جو سویا تو شاید ہی کبھی اٹھ پاؤں
آخری بار یہ کہتا ہوں جگا لے مجھ کو
غم کی شدت سے مری آنکھیں بھی بھر آئی ہیں
دیکھ حالت یہ مری پاس بلالے مجھ کو
میں شجر ہوں گھنا دوں گا تجھے سایہ اک دن
دیکھ لالچ میں کوئی کاٹ نہ ڈالے مجھ کو
یوں پریشاں نہ ہو ہمراز بنالے مجھ کو
دل میں اپنے تو بس اک بار بسالے مجھ کو
اب تو دشمن بھی مرے دوست بنے پھرتے ہیں
کوئی اپنا ہی کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
میں نے بس اپنی ہی باتوں کی دلیلیں دی ہیں
اور وہ دیتا ہے لوگوں کے حوالے مجھ کو
میں جو بکھرا ہوں تو بس یوں ہی پڑا رہنے دو
اب نہیں کوئی نئے سانچے میں ڈھالے مجھ کو
میری آنکھوں سے ٹپکتا ہے لہو بھی اکثر
اب تو ملتے ہیں کئی زخم نرالے مجھ کو
آخرش لوگوں کو ترس آہی گیا ہے مجھ پر
اب بچاتے ہیں وہی مارنے والے مجھ کو
اب ندامت سے جھکا رہتا ہے سر ارشیؔ کا
میرے اللہ تو گناہوں سے بچالے مجھ کو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






