یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے ( حصہ دوم )
Poet: ا ے ایس عارف By: ا ے ایس عارف, Mississaugaیادوں سے بھری شام کو حسیں بناتا ھے
محبوب کی کھوئی قربت کی یاد دلاتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
وہ لبوں کی نرم لرزش کو
حیا میں ڈوبی بند ش کو
آمادہ کراتی لغزش کو
اسکی رسیلی باتوں میں گویا چھپاتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
سرمائی آنکھوں میں انتظار لے کر
مرمریں بانہوں کا ھار لے کر
معطر گیسؤوں کا وار لے کر
وہ دریچے کا منظر کبھی یاد کراتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
کھنکتی چوڑیوں کی جھنکار میں کیا تھا
بدلتی ھوئی تپش رخسار میں کیا تھا
وہ اقرار میں چھپی انکار میں کیا تھا
میری نگاہ یاس کو بہت پر نم بناتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
وہ گزرا وقت پھر سے آ جاتا
اس بہت اپنے کو میں اپنا جاتا
شاید خود کو کہیں میں پا جاتا
یہ خود گزرتا ھے مجھے بھی گزار جاتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
یہ دسمبر کا مہینہ مجھے خوب ستاتا ھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






