یہ راہ جتنی بھی پر خطر ہو وفا کا اونچا مقام کرنا
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیایہ راہ جتنی بھی پر خطر ہو وفا کا اونچا مقام کرنا
کبھی جو راہوں میں مل گئے تو ،انہیں بھی جھک کے سلام کرنا
تو چاند ہے تو یہ میرے آنگن میں ، میرے من میں بھی روشنی کر
کہ اچھا لگتا ہے مجھ کو تیری جھکی نظر سے کلام کرنا
عجیب دن ہیں عجیب راتیں، اکیلے کس سے کروں میں باتیں
کبھی جو ممکن ہو میری سوچوں کہ اپنا بس تو غلام کرنا
ملا ہی کیا بیٹھی سوچتی ہوں نہ پیار پایا ،نہ چین پایا
قصور کیا تھا کوئی بتائے ، کہ اب ہے قصہ تمام کرنا
یہ درد ، ہجرت ہے ، موجِ غم ہے ، یہ میری اپنی بھی آنکھ نم ہے
تو ایسی فطرت میں کیسا جینا ، تو کیسا دل کا ہے نام کرنا
مجھے تو دنیا نے یہ سکھایا ہر ایک اپنا بھی ہے پرایا
کسی کی خاطر ہے جینا مرنا تو کیوں خودی کو غلام کرنا
ہاں یاد آتا ہے آج بھی وہ گیا تو پھر لوٹ کر نہ آیا
جو نوحہ بن کے رلا رہا ہے تو اس سے کیا اب کلام کرنا
کہ میں مسافر ہوں میری منزل یہ میرے رستے میں کب ہے شامل
کسی گلی میں کسی ڈگر پر مجھے نہ آیا طعام کرنا
یہ میرے قائد کا قول سچ ہے جو میں نے بچپن سے ہی پڑھا ہے
کہ کام کرنا ہے کام کرنا ، ہمیں ہمیشہ ہے کام کرنا
گلوں میں اسکو سکوں ملا اور نہ وشمہ اس کو قرار آیا
وہ سخت پتھر تھا ، سخت تر ہے مجھے تو آیا نہ رام کرنا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






