یہ جو ساون کی رت ہے
یہ بیتے عذابوں کی رت ہے
ہر سال رلاتی ہے مجھے
تیرے نہ ہونے کا احساس دلاتی ہے مجھے
تم اکثر کہتے تھے
جاناں ! ان آنکھوں سے نیر نہ بہایا کرو
میں ان میں ڈوب جاتا ہوں
اب ہر سال باہر ساون برستا ہے
اندر سجنی روتی ہے
میں جانتی ہوں تم جہاں ہو وہاں خط اور تار نہیں پہنچتے
مگر ان نینوں کا کیا کروں؟
جو ہر سال تیری جدائی میں برستے ہیں