یہ سوچتا ہوں چراغوں کا اہتمام کروں
ہوا کو بھوک لگی ہے کچھ انتظام کروں
ہر ایک سانس رگڑ کھا رہی ہے سینہ میں
اور آپ کہتے ہیں آہوں پہ اور کام کروں
ابھی تو دل کی قیادت میں پاؤں نکلے ہیں
تلاش عشق رکے تو کہیں قیام کروں
خطا معاف مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
بغیر دل کی اجازت تمہیں سلام کروں
فقیر عشق ہوں کشکول دل میں حسرت ہے
گداگری کا محاصل بھی تیرے نام کروں
مرے جنون کو سہرہ ہی جھیل سکتا ہے
کہیں جو شہر میں نکلوں تو قتل عام کروں