یہ عالم ہو گیا ہے بے بسی سے
کہ میں اکتا چکا ہوں زندگی سے
مجھے تاریکیوں سے ہے محبت
میں گھبراتا ہوں اکثر روشنی سے
نہیں مجھ کو ضرورت اب کسی کی
تنفر ہو گیا ہے آدمی سے
مجھے محبوب ہیں تنہائیاں ہی
بہلتا ہے مرا دل شاعری سے
اسے معلوم کیا میری تباہی
ہوئے ہیں خشک آنسو بے کسی سے
کتر ڈالے گئے ہیں بال و پر یوں
کہ اڑ سکتا نہیں بد قسمتی سے
محبت اس کی جب بھی سوچتا ہوں
میں رو پڑتا ہوں اکثر بے خودی سے
اگر اس کی توجہ ہو تو مجھ کو
نہیں پرواہ جہاں کی برہمی سے
مگر افسوس میری زندگی میں
بپا ہے حشر اس کی بے رخی سے
نگاہِ شوق کو اس کی طلب ہے
نہیں ہوتی تسلی اور کسی سے
مری نظروں کی دنیا بس وہی ہے
خلیلی# کیا مجھے مطلب کسی سے