یہ فرق پڑتا نہیں دھوپ ہو کہ بادل ہو
بس اتنا ہے کہ ترا ساتھ اب مسلسل ہو
ذرا سی دیر تھی، میں حد کراس کر جاتا
کسی نے اتنے میں مجھ سے کہا کہ پاگل ہو؟
مجھے تو ویسے میسر تھے اور بھی موضوع
غزل میں تجھ کو میں لایا کہ تُو مکمل ہو
شجر شجر سے ملے اور میں ملوں تم سے
ہمارے گرد اگر ہو بھی کچھ تو جنگل ہو
میں برف برف رویے سے تنگ آ گیا ہوں
بھلے جدائی ہو لیکن یہ مسئلہ حل ہو
اب ایسی رُت میں تو شاخیں شجر سے جھڑ جائیں
تُو چاہتا ہے کہ ایسے میں سایہ اور پھل ہو؟