یہ لفظ درد میں نکلے صدا نہ بن جائیں
تمہارے واسطے ڈر ہے سزا نہ بن جائیں
نہ اتنی چاہ سے مجھ کو پکارئیے جاناں
کیفیتوں میں کہیں ہم خدا نہ بن جائیں
نہ جانے خوف ہے کیوں پہلے کی طرح مجھ سے
جو دیر بعد ملے ہیں جدا نہ ہو جائیں
یہ جی تو کرتا ہے سب کو بتائوں درد اپنے
مگر یہ ڈر ہے کہیں وہ خفا نہ ہو جائیں
تمہارے روز کے الزامِ بے وفائی سے
جو تنگ آ کے صنم بے وفا نہ ہو جائیں
اسی لئے ہے سخن سے وابستگی ہم کو
جگر کے زخم کہیں لا دوا نہ بن جائیں