یہ چاند اور ستاروں کا ساتھ کافی ہے
ہمیں تو درد کے ماروں کا ساتھ کافی ہے
عنایتیں ہیں یہ تیری ہی کاغذ اور قلم
جو سُونی سُونی دیواروں کا ساتھ کافی ہے
تمہارے جانے سے ہمدرد ہم اکیلے نہیں
کہ یادِ ماضی کے پاروں کا ساتھ کافی ہے
نہ زاہدوں کی نہ ہم کو ہے عابدوں کی ارب
آوارہ ہم ہیں آواروں کا ساتھ کافی ہے
صدا یہ باغ سے آئی خزاں کے موسم میں
گلابِ تر کو بہاروں کا ساتھ کافی ہے
تو مبتلا ہے غلط فہمیوں میں کیوں ضیغم
کہ مشکلات میں پیاروں کا ساتھ کافی ہے