یہ کس نے مجھ پہ اک نیا الزام رکھ دیا
قتلِ رقیب پر ہے مرا نام رکھ دیا
ہر سمت شہر میں یہی باتیں ہیں ہو رہی
محفل میں آکے تو نے تھا کِیوں جام رکھ دیا
اب بات کون سی پہ وکالت کریں تری
دنیا نے جب ہمی پہ ہے الزام رکھ دیا
کچھ ایسے حادثات بھی ہیں رونما ہوے
ہستی کو میری جن نے در و بام رکھ دیا
ہم نے کہا تھا جایئے سائل کو چھوڑ کر
اور آپ نے خوشی سے یہی کام رکھ دیا