یہی ہماری نگاہِ حسرت کبھی پشیماں تمہیں کرے گی
کبھی ہماری یہ جاں نثاری سبب مسرت کا بھی بنے گی
تو ہی تو ہم راز ہے ہمارا تو ہی ہمارا تو ہمسفر بھی
تو ہی تو ہم دم بھی ہے ہمارا تیری رفاقت سدا رہے گی
کبھی اِدھر تو ہے بے قراری کبھی اٌدھر تو وہ ہی تغافل
کبھی تو کوئی رہے بھی نازاں اسی سے ہمت ہمیں ملے گی
جنوں کے آثار لگ رہے ہیں مگر وہ ہی ضبط کا ہے عالم
یہ آنسو اپنے خشک تو ہیں مگریہ طغیانی نہ مٹے گی
کبھی وہ دل سے گزر بھی جائیں نہ کوئی احساس ہو بھی اس کا
کبھی تو آواز ہو بھی ایسی کہ اجنبی جیسی وہ لگے گی
یہ آس ہی اثر کی رہے گی اگرچہ زخموں سے چور دل ہے
کبھی تو ہم پر ترس بھی ہوگا کبھی تو چشم کرم پڑے گی