یہیں پہ تھا میں کدھر گیا ہوں
مجھے سمیٹو بکھر گیا ہوں
غموں کی آندھی یہاں سے گزری
یا میں ہوا سے گزر گیا ہوں
تم ابتدا لے کے آ گئے تھے
میں انتہا سے گزر گیا ہوں
تمہاری آواز آ رہی تھی
تری گلی میں ٹھہر گیا ہوں
جہاں وہ پہنچا پلک جھپکتے
میں رفتہ رفتہ اُدھر گیا ہوں
بس اُس نے دریا کی سمت دیکھا
میں ہونٹ سی کر اُتر گیا ہوں
پرانے یارو نئے سفر میں
مجھے پکارو ٹھہر گیا ہوں
گرفت محسوس ہو رہی ہے
کسی نظر سے گزر گیا ہوں