مجھے کھونے نہ دینا
Poet: fauzia By: fauzia, rahim yar khanالفاظ کا قحط تو نہیں پڑا
پھرکیوں؟
ذخیرہ لفاظ کاگودام خالی ہے
پہلا تعارف پہلی ملاقات
کیوں انجانی سی الجھن میں
الجھ گئی ہوں میں
خود سے بیگانی ہورہی ہوں میں
اور
یہ نٹ کھٹ کان کا جھمکا
جھوم جھوم کر ان کی آمد کا اعلان کر رہا ہے
ڈر ہے کہیں
یہ باتونی ماتھے کا جھومر کہہ نہ دے من کی بات
پیا کے دل کو چھو کر
چمکتی سنہری نتھلی
میرے عارض کی آنچ سے دھک رہی ہے
ہونٹوں کی گلاہٹ
میری بےترتیب سانسوں کی حدت سے
اورر بھی گلابی ہو رہی ہے
کیسے چھپاوں اپنی بے چینی
کوئی سکھی سہیلی پاس نہیں
کس سے بانٹوں الجھن
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرا لال گھونگھٹ
یہ میرا ساتھ دے گا
اس میں حیا سے دمکتے چہرے کو چھپالونگی
پریشاں جذبات کو دبالوں گی
مگر
یہ مہندی لگے ہاتھ
جن پہ ان کے نام کی مہندی لگی ہے
ان کی نظروں سے کیسے چھپاوں گی
یہ چوڑیاں یہ ہار سنگھار
کیسے چھپاوں گی کیسے چھپاوں گی
مشکل بڑھتی جا رہی ہے
پھر یہ تروتازہ چنبیلی کا گجرا
ان کی محبت سے مہکا جارہا ہے
کلی کلی میری بے کلی کی گواہ ہے
پل پل گھٹتی بڑھتی دل کی دھڑکن سن لیں گے وہ
اسے نہ روک پاوں گی نہ چھپا پاوں گی
ہائے
دیکھو ذرا کتنی پاگل ہوں میں
سارے گہنے پیا نام کے پہنے
بھلا ان سے کیونکر چھپاوں گی
یہ دل کا گہنہ
جس کا نگینہ پیا نام سے دمکتا ہے
ان کے نام کردیا تھا
اس سے بھی بڑھ کر
میں ہوئی ان کے نام
سب گہنوں سے پہلے
آج ساری امانتیں ان کو لوٹا دونگی
مگر
سب سے پہلے
اپنا آپ
ان سے بس اتنا کہوں گی
مجھے دل میں کہیں
سنھال کررکھنا
مجھے کھونے نہ دینا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






