اب جو ہوئے جدا پھر مل نہ پائیں گے
چاہ کر بھی یہ دل کھل نہ پائیں گے
تم جب بھی ہو گے اداس میں بھی تو تڑپوں گا
تم سے دور ہو کہ بھی کب دور رہ پائیں گے
میں تیری یادوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لوں گا
گزارے ہوئے حسین پل کیسے فراموش کر پائیں گے
میں تو اک بے سروسامان مسافر ہوں کیا میری حقیقت
کانٹوں بھرے سفر میں دامن کیسے بچا پائیں گے
میں اگرچہ اقرارِ وفا نہ کر سکا لیکن تجھے چاہا تو ہے
پیار کی اس حقیقت کو تو وہ بھی نہ جھٹلا پائیں گے
اک اثاثہ بچا ہے میری عمر بھر کی ریاضت کا
وہ بھی جو چھن گیا پھر چاہ کر بھی جی نہ پائیں گے
وہ آج بھی مجھے اپنا سب کچھ مانتے ہیں
بیتی یادوں سے پھر بھلا کیسے پیچھا چھڑا پائیں گے