جلتی ہوں شمع کی طرح ہر شام عشق میں
ہو جائے میرا بھی تو زرا نام عشق میں
"دامن کو رکھ سنبھال کے ناکام عشق میں "
پینا پڑے گا زہر کا بھی جام عشق میں
چلنا ہے میرے ساتھ تو کشتی ڈبو کے آ
تنہا نہ چل سکے گا تو دو گام عشق میں
باغ و بہار وقت کے ریلے میں بہہ گئے
سوچا کہاں تھا ہوگا یوں انجام عشق میں
وہ مصلحت کے ہاتھ میں قربان ہوگئے
جو بک گئے تھے دیکھئے بے دام عشق میں
وشمہ تمہارے نام کی ہو خیر ،کیا کروں
جو ہوگیا سو ہو گیا بد نام عشق میں