مجھ سے دِکھا یہ گیا نہ مجھ سے بتایا گیا
درد ایک میراث تھا بــــــــــــــس اُٹھایا گیا
بے ساکھی کے میری گرد پہلے بھی تھے تماشائی
چارپائی پے بھی تماشہ، پھر مجھے سُلایا گیا
سُخنِ باطـــل پے تھی رواں محفل کی داد
ذکرِ حـــــــــــــــق پے اُسے واپس بُلایا گیا
تیرے زخمِ جگر کے نصیب میں تھا یہ نقاب
زخم تھا کچھ دیر عیاں پھر نہ دکھایا گیا
تم نے تو نزاکت سے چھین لی پھول سے خوشبؤ
میری آنکھ سے وہ منظر مِٹائے نہ مِٹایا گیا
درد تھا ہم دونوں کے حصے کا ورثہ احسِن
مجھے بھی نوچا گیا اسے بھی ستایا گیا