جلوے ہیں آشکار عجب روپ رنگ سے
کیا چھوٹ پڑ رہی ہے تیرے انگ انگ سے
لمسِ بدن سے اس کے صبا کی نشت میں ہے
جھونکے ہوا کیے مست ہوئے ہیں ملنگ سے
کس آنکھ کی مجال کہ چھو لے وہ عکس ِ یار
آئینہ چومتا ہے جسے اپنے ڈھنگ سے
صیقل کیا ہے دل کو عجب حسنِ یار نے
جذبات ہو چلے تھے میرے زنگ زنگ سے
کیا جانیے کہ کیا ہے، مگر تن بدن میں آج
اک تھر تھری سی ہے کسی تازہ امنگ سے
فرہاد و قیس و وامق و طارق کا ذکر کیا
اس عشق میں گئے ہیں کئی نام و ننگ سے