بیتاب موسموں کی اگن ساتھ لئے جا
سینے میں گدگداتی چبھن ساتھ لئے جا
سنتے ہیں تیرے نام سے چلتی ہیں بہاریں
ایسا ہے تو روداد چمن ساتھ لئے جا
ہر گام تغیر ہے تیری ذات کا خاصہ
یہ بدلیاں یہ نیل گگن ساتھ لئے جا
نکلا ہوں ذرا شوق کی منزل کو دیکھنے
پیچھے سے صدا آئی “کفن ساتھ لئے جا“
ممکن ہے کہ پھر ٹوٹ کے یاد آئیں اجالے
اے جان تمنا کی کرن ساتھ لئے جا
بے امتیاز پھیلنا فطرت کا نشاں ہے
خوشبو کا بارشوں کا چلن ساتھ لئے جا
وابستہ تیرے ہونے سے ہے رنگ تغزل
جاتے ہوئے یہ سارا سخن ساتھ لئے جا
آئے گا تیرے کام میرا آخری تحفہ
اے حسن یہ بے ساختہ پن ساتھ لئے جا