آج ہجراں کی شبِ غم نے بہت طول دیا
آج پھر زیست کے صدمے نے بہت طول دیا
ظلمتِ شب کو بہر طور نکھارا ہم نے
ایک ہی شخص کے فتنے نے بہت طول دیا
ایسا بخشا ہمیں اک روگِ مسلسل اس نے
پھر اسی روگ کے مٹنے نے بہت طول دیا
چشم پر نم ہی سہی چشم تصور تو رہا
گئے لمحوں کے سمٹنے نے بہت طول دیا
ہائے یادیں کہ ہجومِ غمِ ماضی کا ملن
آج تو گویا قیامت نے بہت طول دیا
ہم بھلا دیں جو بھلانے کا ہو یارا طاہر
اب تو اس شوخ کی فرقت نے بہت طول دیا