بجلی کی بادلوں سے کچھ بات ہو چکی ہے
بھیگا ہوا ہے موسم برسات ہو چکی ہے
تارے کھلے ہوئے ہیں اور رات ہو چکی ہے
ایسے میں تم کہاں ہو آواز دو جہاں ہو
چمپا کی کیاریوں میں پنچھی چہک رہے ہیں
پھولوں کے ساغروں سے پی کر لہک رہے ہیں
کلیاں چٹک رہی ہیں غنچے مہک رہے ہیں
ایے میں تم کہاں ہو آواز دو جہاں ہو
پھولوں کی انجمن میں تتلی ہے رقص فرما
بوندوں کے ساز ہی پر کچھ گا رہی ہے برکھا
اور ‘پی کہاں‘ کی دھن میں مدہوش ہے پپیہیا
ایسے میں تم کہاں ہو آواز دو جہاں ہو
میں نے چکور بن کر ہر انجمن میں ڈھونڈا
میں نے غبار بن کر ایک ایک بن میں ڈھونڈا
اپنے وطن سے باہر اپنے وطن میں ڈھونڈا
آخر کو تم کہاں ہو آواز دو جہاں ہو