آپ اس دل سے ہر اِک بار اُلجھ جاتے ہیں
اِس نے پہلے کبھی سمجھا تھا ، جو سمجھاتے ہیں
لذتِ قیدِ قفس سے وہ ہوئی اُنس کہ اب
گر صباَ پاس سے گزری بھی تو گھبراتے ہیں
زند گی چل غمِ دوراَں سے اِجازت لے کر
کوچہء یار میں کچھ دیر ٹہر جاتے ہیں
اِنبساطِ دلِ خوش فہم کا یہ عاَلم ہے
خود سے بھی آ نکھ ملاتے ہوئے شرماتے ہیں
جانبِ کوئے ملامت یہ ترِے دیوانے
لاکھ سمجھاوْ مگر پھر بھی نکل جاتے ہیں
جب بھی ڈوبا ہے شہر رات کی تار یکی میں
چاند تاروں کی طرح ہم بھی بکھر جاتے ہیں