ساقیا ! ایسا پلا بادہ ء سر جوش مجھے
بے خودی جس سے بڑھے ، کچھ نہ رہے ہوش مجھے
جس طرف جاؤں ، سبھی لوگ کہیں دیوانہ
حسن جاناں نے بنایا ہے یوں مدہوش مجھے
بھول سکتا ہی نہیں دل کو سراپا ان کا
اب تلک یاد ہیں وہ چشم و لب و گوش مجھے
ہے وہ پہلے سا ستم اب نہ وہ بیداد کہیں
کر دیا اس نے ہے شاید کہ فراموش مجھے
مستیاں ایسی بھلا ساغر و مینا میں کہاں ؟
کر دیا جیسے تری آنکھوں نے مدہوش مجھے
چارہ گر مہر بلب بیٹھا ہے بالیں پہ مری
یاس و حرماں نے کیا ایسے ہم آغوش مجھے
تیری الفت نے خوشی کوئی نہ چھوڑی گھر میں
کر دیا عشق نے دنیا میں الم کوش مجھے
میں بروں سے بھی برا ، آپ ہیں اچھے سب سے
آئیے ! آج نیا دیجے کوئی دوش مجھے
اب تو عصیاں پہ بھی دل ناز کیا کرتا ہے
للہ الحمد ! ملا تم سا خطا پوش مجھے
کہہ گیا راز میں رومی ! وہاں کیونکر سارے
بزم میں کاش کراتا کوئی خاموش مجھے