اب ملاقات ہو تو ایسے ہو
درمیاں کوئی بھی حجاب نہ
کہیں دیوار ہو نہ در کوئی
کینجِ ویراں کہیں نہ گھر کوئی
جز ہمارے کہیں نہ ہو کوئی
سب زمین زاد سب فلک والے
کھوئے ہوں اپنی الجھنوں میں کہیں
یہ زمیں اپنے آپ میں گم ہو
آسماں اپنے دھیان میں ہو کہیں
ہر طرف خامشی اندھیرے سی
جس میں روشن ہوں دہ دیے
میں !
تم !
اور ہوا روٹھ کر چلی جائے
سانس لیں ایک دوسرے میں ہم