اُس کی بزم میں جانے کو، اب وقت نہیں ملتا
کوئی بھی وعدہ نبھانے کو، اب وقت نہیں ملتا
کرنے کو مجھے اور، بڑی باتیں ہیں کرنا
ہر بات بتانے کو، اب وقت نہیں ملتا
سنا ہے محبت میں، ہیں رسمیں ضروری
ہمیں رسمیں نبھانے کو، اب وقت نہیں ملتا
نفرت کے جال میں، اِس طور سے ہوں الجھا
کہ آنسو بھی بہانے کو، اب وقت نہیں ملتا
غمِ دوراں میں اُلجھا ہوں، اب کے اِس طرح
اُسے ملنے ملانے کو، اب وقت نہیں ملتا
سنتے ہیں کہ ممکن ہے، انساں کا سنبھلنا
ہمیں دل اپنا بہلانے کو ، اب وقت نہیں ملتا
جو روٹھ کے ہم سے، کہیں اور جا چکے ہیں
اُنہیں پھر سے منانے کو، اب وقت نہیں ملتا
تنہا کسی محفل میں، کیا ناصر اب جائے
اسے اپنے بھی گھر جانے کو، اب وقت نہیں ملتا