اب اپنے کے صبر کا کیا کیجیئے؟
دل مین چبھے نشتر کا کیا کیجیئے
جگر چھلنی ہوا جا رہا ھے اپنے
تیرے پیار میں اور صبر کیا کیجیے
سامنے آ کر بھی پردہ کرتے ہو
اور برپا کوئی حشر کیا کیجیئے؟
جب تمہیں انکار ھے اپنی الفت سے
تو بات دل کی کھل کر کیا کیجیے؟
اسد فارغ بیٹھے ہیں چلو عشق کر لیں
ما سوا اسکے کوئی کام بہتر کیا کیجیئے