اسے تو اپنے ہی مصروف کام پر رکھا
Poet: اےبی شہزاد By: اےبی شہزاد, Mailsiاسے تو اپنے ہی مصروف کام پر رکھا
بھروسہ میں نے مکمل غلام پر رکھا
سنا چکے ہیں سبھی اپنی شاعری لیکن
عدو مرے نے مرا نام اختتام پر رکھا
مرے تو درد کی حدت مزید بڑھ گئی ہے
یہ ہاتھ اپنا میں نے جب مسام پر رکھا
دکھانا یار کو تھا اس لیے گیا ہوں مے خانے
نہیں میں پیتا مگر خود کو جام پر رکھا
کوئی بھی کام نہیں آتا ڈھنگ سے تھا مجھے
غزل سے ذوق تھا کتیہ کلام پر رکھا
کبھی بھی سوچا نہیں ہے میں نے برا ان کا
تھا رشتہ ایسا اسے ا حترام پر رکھا
تھا ہر طرف ہی اندھیرا یہ روشنی کہاں تھی
چراغ صبح کو دیوار شام پر رکھا
تری نگاہ کو آنکھیں مری تو ترس گئیں
خوشی یہی ہے مجھے التزام پر رکھا
مری بساط سے بڑھ کر عطا کیا ہے رزق
خدا نے مجھ کو تو اعلی مقام پر رکھا
امیر لوگ تجارے عجیب کرتے ہیں
جفا کی آڑ میں کارِ دوام پر رکھا
ملاپ اپنا کبھی ہونا ہی نہیں شہزاد
یہ رابطہ تھا ہی اتنا کہ دام پر رکھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






