کاش کہ سمجھا مجھے بھی کبھی ہوتا
کاش کہ گلہ کبھی نہ یوں کیا ہوتا
کاش کہ بہانےسے کبھی ملا ہوتا
چھوڑتا نہ یوں سسکتا عمر بھر کے لیے
نہ منزل کا علم نہ بسیرے کا پتہ
اک قافلہ ہے رواں، اک سمندر ہے رواں
بڑے دعویدار تھے وفائے کمال کے
ایسے چلے کہ کبھی مڑ کے بھی نہ دیکھا
وفا تھی آنکھوں میں یا کہ چلن زمانے کی
اعتماد بے مثال تھا یا کہ دیوانےہوئے تھے ہم