ساحل تھا بہت دور پے در یا مرے آگے
نخوت سے بھرا پِھرتا تھا قطرہ مرے آگے
رشتوں کے تعلق کو بھی مجروح کیا ہے
دیواروں کی صورت میں ہے سیما مرے آگے
نکلا جو ارادہ لئے ، رسوائی کا میری
کرڈالا اسے رب نے ہی رسوا مرے آگے
ہاں دوستی جب سے مری جگنو سے ہوئی ہے
ظلمت ہے بہت پیچھے ، اجالا مرے آگے
جب سے مرے اللہ نے دی فقر کی دولت
خود کاسہ لئے آگئی دنیا مرے آگے
مانا کہ یہ دنیا بھی مکافات عمل ہے
اک دن جو کیا ، سامنے آیا مرے آگے
جب یاد کے افلاک پہ تاروں کی کمی تھی
بنتا گیا ہر اشک ستارا مرے آگے
میں جیسے تماشائی بنا دیکھ رہا ہوں
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک حرف بھی میرا نہیں مولا کا دیا ہے
تم لاکھ کہو اس کو صحیفہ مرے آگے
بستی ہے کہاں یہ تو کوئی گورکدہ ہے
اٹھتا ہے جنازوں پہ جنازہ مرے آگے
پُر پیچ سی راہوں نے ہی بھٹکا دیا مفتی
حالانکہ تھا اک سیدھا سا رستہ مرے اآگے